کوئی تو آ کے مرے در کو کھٹکھٹائے بھی
اندھیری رات میں جگنو سا جگمگائے بھی
گماں کے پنجرے میں کب سے کوئی پرندہ ہے
کبھی تو کھولے پروں کو کہ پھڑپھڑائے بھی
انا کی دھوپ میں گم صم کھڑا ہے کون یہاں
میں چھاؤں ہوں مجھے دیکھے وہ مسکرائے بھی
وہ میری سانس کا جیسے اٹوٹ حصہ ہے
اگر ہے اس کو بھی احساس تو جتائے بھی
دھواں دھواں سا جو منظر دکھائی دیتا ہے
کبھی تو دل میں وہ چہرہ سا جھلملائے بھی
میں آئنہ تو نہیں ہوں قبول ہے لیکن
کمی ہے کیا مرے اندر کوئی بتائے بھی
تمام عمر ہی ہنستا رہا ہوں میں عادلؔ
کبھی تو نم ہوں یہ آنکھیں کوئی رلائے بھی