بیاں غیروں سے اپنا غم کریں کیا
نمک کو زخم کا مرہم کریں کیا
نئے موسم کے خاکے ہیں نظر میں
گذشتہ فصل کا ماتم کریں کیا
اترتا ہی نہیں ہے اس کا جادو
بتاؤ خود پہ پڑھ کر دم کریں کیا
اسے ہم کس طرح دل سے نکالیں
یہ دل سنتا نہیں تو ہم کریں کیا
ہم اس کی بے رخی کا ذکر کر کے
اسے کچھ اور بھی برہم کریں کیا
ہمیں جبراً ہی جینا پڑ رہا ہے
بتا اے گردش پیہم کریں کیا
غموں کی دھوپ میں جب جل چکے ہیں
خوشی کی چھاؤں کا عالمؔ کریں کیا