ہماری پیاس افسانہ بنی ہے
یہی موضوع مے خانہ بنی ہے
ہمارے دل کی حالت کون جانے
ہماری وضع شاہانہ بنی ہے
محبت نے بھرے دل میں وہ شعلے
ذرا سی خاک پروانہ بنی ہے
لٹا دی جس پہ دنیا وہ نظر بھی
ہمارے غم سے بیگانہ بنی ہے
اسی دنیا کے اک گوشے میں یا رب
مری دنیا جداگانہ بنی ہے
کھنکتی گونجتی تنہائیوں سے
ہماری شب پری خانہ بنی ہے
نہ پہچانو گے تم یہ دل کی بستی
تمہارے بعد ویرانہ بنی ہے
محبت نے دیے ہیں ہم کو آنسو
یہی دو بوند نذرانہ بنی ہے
خطا کیا ہو گئی مسرورؔ ہم سے
کہ ہر ہر سانس جرمانہ بنی ہے
عائشہ مسرور