دلوں پر حکمرانی ہے اسی کی
یہ قصہ اور کہانی ہے اسی کی
یہاں قبضہ نہ کرنا بھول کر بھی
یہاں بس راجدھانی ہے اسی کی
کہ ہم بد بخت لوگوں میں یقیناً
یہ ساری کامرانی ہے اسی کی
تبھی تو شہر سارا جا رہا ہے
مری جاں میزبانی ہے اسی کی
یہ پھولوں کے نئے پیغام آنا
یقیناً مہربانی ہے اسی کی
سبھی سے مسکرا کے بولتے ہو
یہی تو بد گمانی ہے اسی کی
قبیلہ منحرف ہونے لگے تو
بتانا یہ نشانی ہے اسی کی
ہمیں دھتکار کر رونے لگے گا
یہ حرکت بھی پرانی ہے اسی کی