چراغوں کا کلیجہ بھن رہی ہیں
ہوائیں درد کس کا سن رہی ہیں
بہت مصروف ہیں سانسیں ہماری
ابھی جینے کی چادر بن رہی ہیں
یہ اڑتی رنگ برنگی تتلیاں کیا
شگفتہ پھول دل کا چن رہی ہیں
پہاڑی راگ جب ندیوں نے چھیڑے
اچھلتی لہریں خود سر دھن رہی ہیں
چمکتی بجلیوں پہ غور کرنا
ہمارے ہوش کا ناخن رہی ہیں
اشہد کریم الفت