اشک ہوں آہ ہوں آتش ہوں کہ اخگر دیکھو
کیا ہوں میں دوستو آؤ مجھے چھو کر دیکھو
سوچ کے غار سے اک شور اٹھا ہے تو سہی
اب کہاں جا کے ٹھہرتا ہے یہ لشکر دیکھو
میں نے مانا کہ گگن پھول کی کشتی ہے مگر
اپنی دھرتی پہ بھی کچھ دور تو چل کر دیکھو
میں نے جو سنگ اچھالا وہی سورج نکلا
ڈوبتی رت کے دہکتے ہوئے تیور دیکھو
دل کہ دیپک تھا کبھی آج ہے داغوں کا کھنڈر
کتنے رنگ اور دکھاتا ہے مقدر دیکھو
گل سے خوشبو ہی اگر روٹھ گئی ہو اطہرؔ
پھر تو بس ایک مہکتا ہوا پتھر دیکھو