سنگ دل یوں بھی محبت کا صلہ دیتے ہیں
بھول کر عہد وفا رنج وفا دیتے ہیں
اپنے دیوانے کو کیا خوب سزا دیتے ہیں
دل کے ہر گوشے میں طوفان اٹھا دیتے ہیں
مدتیں گزریں ادھر سے کوئی گزرا ہی نہیں
روز ہم شمع جلاتے ہیں بجھا دیتے ہیں
چال میں رقص نسیم سحری کے انداز
بات کرتے ہیں تو غنچوں کو کھلا دیتے ہیں
ایک ہی کام محبت میں ہے دیوانوں کا
تم سلامت رہو بس یہ ہی صدا دیتے ہیں
موت اس کی ہے حیات اس کی ہے دنیا اس کی
جس کو جینے کا سلیقہ وہ سکھا دیتے ہیں
ان سے اے دردؔ تغافل کی شکایت کیا ہے
جو ہر اک بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں