یہ نہ سمجھو راہ کی دشواریاں چپ ہو گئیں
گر پڑے ہیں اس لئے بیساکھیاں چپ ہو گئیں
دیر تک سنتے رہے چپ چاپ ہم خاموشیاں
اور جب بولے تو پھر خاموشیاں چپ ہو گئیں
یاد کرنے والے ہم کو یاد بن کر رہ گئے
ایک مدت سے ہماری ہچکیاں چپ ہو گئیں
لکھتے لکھتے رک گئے تھے وہ سسک کر جس جگہ
پڑھتے پڑھتے اس جگہ وہ چٹھیاں چپ ہو گئیں
وقت نے مجھ کو دکھائے ایسے منظر بارہا
رفتہ رفتہ سب مری حیرانیاں چپ ہو گئیں
ایک پل کو یوں لگا تھا مر گئے ہیں عرشؔ ہم
جب رہائی پر ہماری بیڑیاں چپ ہو گئیں