عشق میں ہم سے مشقت نہیں کرنی آئی
جیسے کرتے ہیں محبت نہیں کرنی آئی
آپ کے ہاتھ پہ ہم ہاتھ بھی رکھتے کیسے
ہم سے تو اپنی ہی بیعت نہیں کرنی آئی
گردش وقت میں ٹھوکر نہیں کھائی جس نے
اس قبیلہ کو بغاوت نہیں کرنی آئی
ہم ترے سائے میں کچھ دیر ٹھہرتے کیسے
ہم کو جب دھوپ سے وحشت نہیں کرنی آئی
ہم سے نا اہلوں کو اس کار گہہ ہستی میں
زندہ رہنے کی بھی صورت نہیں کرنی آئی
عابدہ کرامت