زندگی کا لطف اب حاصل نہیں
ہائے وہ ساقی نہیں محفل نہیں
اب وہ لطف و سر خوشی حاصل نہیں
کیا کروں مجبور ہوں وہ دل نہیں
کوئی پہلو بھی قرار دل نہیں
زندگی کو کچھ سکوں حاصل نہیں
زندگی وہ زندگی کس کام کی
جب رضائے دوست ہی حاصل نہیں
اس چمن میں انقلاب آیا تو کیا
فصل گل بھی سازگار دل نہیں
اللہ اللہ یہ ہجوم آرزو
خانہ ہائے دل میں جائے تل نہیں
ابتدائے عشق کی منزل تو ہے
انتہائے عشق کی منزل نہیں
ہے مرے پیش نظر اس کا مآل
کارواں اب جانب منزل نہیں
دل وہی دل ہے کہ جس میں درد ہو
درد جس دل میں نہیں وہ دل نہیں
تو ہی کیا ہے میرے دل سے بد گماں
مجھ کو خود بھی اعتبار دل نہیں
داغ دل سے کون خالی ہے یہاں
ماہ کامل بھی ذکیؔ کامل نہیں
عبدالقیوم زکی اورنگ آبادی