جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے
دل کو شاید قرار کی ضد ہے
کوئی بھی تو نہیں تعاقب میں
جانے کس سے فرار کی ضد ہے
ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں سناٹے
پر ہمیں انتظار کی ضد ہے
عشق چاہے کہ لب کو جام لکھے
حسن کو انکسار کی ضد ہے
بارہا ہم نے سنگسار کیا
پر اسے اعتبار کی ضد ہے
ایک انجام طے شدہ کے لیے
پھر خزاں کو بہار کی ضد ہے
اک بار اس سے کیا ملیں نظریں
دل کو اب بار بار کی ضد ہے
علینا عترت