google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے

جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے

Admin
0


 

جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے 

دل کو شاید قرار کی ضد ہے 


کوئی بھی تو نہیں تعاقب میں 

جانے کس سے فرار کی ضد ہے 


ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں سناٹے 

پر ہمیں انتظار کی ضد ہے 


عشق چاہے کہ لب کو جام لکھے 

حسن کو انکسار کی ضد ہے 


بارہا ہم نے سنگسار کیا 

پر اسے اعتبار کی ضد ہے 


ایک انجام طے شدہ کے لیے 

پھر خزاں کو بہار کی ضد ہے 


اک بار اس سے کیا ملیں نظریں 

دل کو اب بار بار کی ضد ہے 

علینا عترت

Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !