ہے زلف شب کی تمنا ترے شباب کا رنگ
جو دیکھ لے تو بدل جائے ماہتاب کا رنگ
تری نگاہ کی یہ کیف باریاں توبہ
بھرا ہوا تری آنکھوں میں ہے شراب کا رنگ
عیاں ہوا ہے محبت کی داستاں بن کر
کسی کے چہرۂ پر نور پر حجاب کا رنگ
ہے ان کی چشم تجاہل کی کار فرمائی
بدل گیا جو مری زیست کی کتاب کا رنگ
دل حزیں پہ نہ پوچھو گزر گئی کیا کیا
نگاہ حسن میں دیکھا جو اجتناب کا رنگ
یہ رنگ و بوئے چمن عارضی ہیں یوں احمدؔ
کہ سطح آب پہ جس طرح اک حباب کا رنگ
احمد میرٹھی