زمانہ مبتلا کیا کیا قیاس آرائیوں میں ہے
کرم ان کا بھی کچھ شامل مری رسوائیوں میں ہے
نہ جانے کتنی یادیں دل کو بہلاتی ہیں آ آ کر
نشاط زندگی حاصل مجھے تنہائیوں میں ہے
گراں خوابی کے عالم ہی میں گزرے گا ہر اک لمحہ
تغیر ہی تغیر وقت کی انگڑائیوں میں ہے
ہے پنہاں کس قدر ندرت تخیل کی بلندی میں
گراں مایہ دفینہ فکر کی گہرائیوں میں ہے
سخن پرور جو ہو کوئی ملے داد سخن احمدؔ
ہماری کامرانی حوصلہ افزائیوں میں ہے
احمد میرٹھی