گھاٹ کے پاس سے گزرے گی ذرا دھیان رہے
فالتو بات نہ کرنا کہ مرا مان رہے
تو نہیں تھا تو ہر اک شور بھی سناٹا تھا
یعنی ہم صوت و صدا میں بھی پریشان رہے
گھر سے نکلا ہوں دعا کوئی نہیں ساتھ مرے
کیسے ممکن ہے کہ اب راستہ آسان رہے
خوش نصیبی کہ مجھے دیکھ کے وہ ہونٹ کھلے
اور دکھ یہ کہ مرے نام سے انجان رہے
تیرے آنے پہ کئی پھول کھلے تھے جن میں
تیرے جانے سے وہ گلدان پریشان رہے
ہاں مگر کھڑکیاں کھلنے لگیں چلانے سے
در و دیوار کہ بے جان تھے بے جان رہے
سامنا ہو تو پشیمانی نہ ہو چہروں پر
کم سے کم اتنا تعلق تو مری جان رہے
جس پہ اک بار ترا نقش قدم پڑ جائے
کیسے ممکن ہے کہ وہ راستہ ویران رہے
روزن شب کے دریچوں سے ہوا آتی رہے
سانس در سانس ہر اک مرحلہ آسان رہے
کانپتے ہاتھ سے اس بت کو چھوا تھا آربؔ
کیا عجب ہے کہ سلامت مرا ایمان رہے