غموں کی دھوپ میں اف ماہتاب سے چہرے
جھلس کے رہ گئے کیا کیا گلاب سے چہرے
لکھی ہوئی نظر آئیں حکایتیں کیا کیا
پڑھے جو غور سے ہم نے کتاب سے چہرے
متاع نور مصائب نے لوٹ لی شاید
دکھائی دیتے ہیں بے آب و تاب سے چہرے
یہ سوچتا ہوں کسے معتبر کہا جائے
نظر میں جتنے ہیں سب ہیں سراب سے چہرے
جو انقلاب زمانہ سے ہو گئے روپوش
خیال میں ہیں وہی لا جواب سے چہرے
گرا ہے جب بھی ستارہ کوئی بلندی سے
ابھر کے ذہن پہ آئے شہاب سے چہرے
نظر کے سامنے رہتے تھے جو کبھی احمدؔ
وہی تو رہ گئے سب ہو کے خواب سے چہرے
احمد میرٹھی